top of page
Writer's pictureAhmed Shameel

کیاہم اب سنجیدہ ہوسکتے ہیں؟ (July 17, 2020)


پندرہ جنوری 2009 کوکیپٹن چیسلی سلن برگ نے  یو ایس ائیرویز کی فلائٹ نمبرون فائیو فورنائن کو دریائے ہڈسن پر ایمرجنسی میں اتارا۔اس طیارےکےدونوں انجن دوران پرواز پرندوں کے ٹکرانے کی باعث  ناکارہ ہوگئے تھےاور اس پرواز کو انتہائی خطرناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔کچھ سال بعد اس  واقعے پرایک فلم ’’سلی‘‘ کےنام سے بنائی گئی جس میں ٹام ہینکس  نے مرکزی کردار ادا کیا۔

تیس سال تک یوایس ائیرویزمیں کام کرنے والے کیپٹن سلن برگ  کو اس واقعے کے بعد انکوئری کا سامنا کرنا پڑا ۔اس فلم کا ایک سین فضائی حادثات میں کی جانے والی انکوئری کے تناظر میں خاصہ غور طلب ہے۔اس فلم میں انکوئری کمیٹی نے کمپیوٹرسیمیولیشن پرپائلٹس کےذریعےیہ ثابت کرنےکی کوشش کی کہ اگرسلی  چاہتے  تو  ہڈسن کے بجائے رن وے پر کامیاب لینڈنگ کرسکتے تھے۔  حقیقی واقعے  پر مبنی  اس فلم میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ جیوری ایک کے بعد ایک  سیمیلیوشن  سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہوتی ہے کہ طیارے کو کامیاب لینڈنگ  کروائی جا سکتی ہےتوایسے میں’’ سلی ‘‘ یعنی سلن برگ برجستہ  کہتے ہیں کہ کیا ہم اب سنجیدہ ہوسکتے ہیں؟سلی اس موقع پریہ کہتے ہیں کہ یہ پائلٹس  غیرمعمولی حالات میں انسانوں جیسے  ردعمل نہیں دےرہے،سلی نے اپنے مکالمہ میں کچھ یوں کہا کہ  پرندے ٹکرانے کے بعد ان پائلٹس کو یہ معلوم تھا کہ انہیں  ائیرپورٹ رن وے کی طرف ہی جانا ہےجبکہ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا تھا۔ہمیں کسی نےنہیں بتایا کہ آپ اتنی کم بلندی  پردونوں انجنوں کےناکارہ ہونے پر کیا کریں گے،اٹھائیس سوفٹ کی بلندی  پرہم نےطیارےکوپانی میں اتراکیوں کہ اس صورتحال کا اس سےپہلے سے کسی کو سامنا نہ کرنا پڑا۔اس نکتےپرسارا کیس جیسے کہ سلی کے حق میں آگیا اور باؒلاخرجیوری اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ سلی نے جو کیاوہ  ٹھیک تھا۔


اس فلم کوایک بارسےزیادہ دفعہ دیکھنےکہ بعد میں نے ہڈسن  ریور واقعے کو فلائٹ پی کے 8303 کے ساتھ موزا نہ کیا جس کوکیپٹن سجاد گل اڑا رہے تھے۔ فرق اتنا ہے کہ امریکا میں اس واقعہ پرجیوری بیٹھی اور کچھ ماہ کے بعد اس واقعے میں کیپٹن سلی کےموقف کو درست قرار دیتے ہوئےفیصلہ ان کےحق میں دیا۔ جب کہ سجاد گل کے معاملے پرابتدائی انکوئری سےقبل ان کوشہیداورحتمی رپورٹ سے قبل ہی ذمہ دار ٹھہرادیا گیا۔کراچی میں فلائٹ پی کے8303 کےحادثے کےکچھ دن بعد ہی ائیرٹریفک کنڑولرکےساتھ لیک ہونے والی گفتگو پراکثر ایوی ایشن ایکسپرٹس نے مختلف آراء دی۔کسی نےاس حادثے پر کہا کہ پائلٹ کی گھبراہٹ اس کی آواز سے عیاں تھی توکسی نےکہا کہ اس  نازک موقع  پربھی سجاد گل پراعتماد تھا۔اس تمام صورتحال میں انٹری ہوتی ہے وزیربرائےہوابازی غلام سرور خان کی،جن کی چند پریس کانفرنسز اور اسمبلی کے فلور پر تقریر ابتدائی انکوئری اسٹیج سے ہٹ کر پائلٹس کے مبینہ جعلی لائسنسز پرمرکوز رہی۔ ان کےبیان نےنہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح  پر وہ ہیڈلائنز بنائی کہ پاکستان کی ہوابازی  کے شعبے کو ایک زلزلےکی سی کیفیت سے دوچارکرگئی۔

وزیرہوابازی کی اسمبلی کےفلور پرپاکستانی کمرشل پائلٹس کی ڈگریاں سے متعلق انکشاف،شک،معلومات یا اب تک کی انکوئری کی بنیاد پر تھا!یہ بیانات ہرگزرتےدن کےساتھ ابہام پیدا کرتےجارہےہیں مگر یورپی یونین، برطانیہ،خلیجی ممالک،امریکا سمیت دیگر کئی ممالک نے پاکستانی پائلٹس اور  فلائٹ آپریشن افسران کے مشکوک لائسنس کی جانچ پڑتال کی بنیاد پر فضائی آپریشن معطل کردیا۔

ان حالیہ پیشرفت کے بعد یہاں کچھ سوال جنم لیتے ہیں کہ کیا وزیر صاحب کو حتمی انکوئری رپورٹ سے قبل اس طرح کا بیان دینا چاہیے تھا؟ اس بیان  سے دانستہ کہیں انکوئری کا رخ کسی اور جانب موڑ جائے گا؟( کیونکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہوا بازی نے طیارہ حادثے سے متعلق قومی ایئر لائن کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئر مارشل ارشد ملک کی غیر حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حادثہ کیس میں صرف سی ای او کی بریفنگ قبول کریں گے)۔ سوال یہ بھی کہ کیا  وزیراعظم کے اصلاحات کے پارلیمنٹ  میں دیے گئے بیان پر واقعی تحریک انصاف کی حکومت اس بار کچھ کر پائے گئی ؟کیا قومی ائیرلائن اب اپنی بچھی کچی ساکھ بچاپائی گی؟اورکیا حالیہ پیشرفت کہ جس میں ڈی جی سول ایوی ایشن نے انکشاف کیا ہےکہ پاکستان کےکسی پائلٹ کے پاس بھی جعلی لائسنس نہیں اور پاکستانی ایوی ایشن اتھارٹی نےپائلٹس کو خود لائسنس جاری کیے، تو اب اس معاملے پر وزارت ہوابازی کیا رائے اپوزیشن ، متعلق شعبے اور سب سے بڑھ کر عوام کو دے پائی گئی۔۔

جواب کچھ بھی ہوفضائی حادثےکےتناظرمیں بننےوالی فلم میں کیپٹن سلی جیوری اورحاضرین کویہ پیغام دے جاتے ہیں کہ پہلے تولوں اور پھر بولوں اور یہ کہ کیا ہم اب سنجیدہ ہوسکتے ہیں!۔

2 views0 comments

コメント


bottom of page